علوم اسلامیہ کے ذخیروں پر مشتمل کتب خانے

                                                            کتاب کی اہمیت رہتی دنیا تک کبھی ختم نہ ہوگی۔ کتاب کی صورت اور نوعیت میں تبدیلی آسکتی ہے مگر کتاب  کا کردار کبھی بھی  ختم نہیں کیا جاسکتا۔فکر وعمل میں ترقی کے تمام راستے کتاب سے ہو کر گزرتے ہیں کیوں کہ کتاب در اصل علم و تجربہ کی ٹرانسفرمیشن  کے ذریعے کا نام ہے خواہ  وہ کسی بھی شکل میں ہو ۔

                                                            کتابوں کے حسن انتظام سے معلوم ہوتا ہے کہ کون سی قوم   اس ذریعے کو بہتر طور پر استعمال کررہی ہے اور فکرو عمل کے میدان میں  کتنی سنجیدہ ہے۔  دنیا کی ترقی یافتہ اقوام جو تمام تر ٹیکنالوجیز سے لیس ہیں  کتب اور لائبریری کے انتظام اور  فعالیت پر بھر پور  توجہ  اور محنت صرف کررہی ہیں۔ یعنی کتاب کی اہمیت کا اصل ادراک انہی کو ہے جو اس ذریعے کا استعمال کرکے ترقی کی منزل تک پہنچے۔ اس شعبے کا مقصد باحثین کا کتاب کے ساتھ لگاؤ پیدا کرنا ہے اور  علوم اسلامیہ کے ذخیرے پر مشتمل لائبریریوں  تک رسائی دینا  ہے۔ علوم اسلامیہ کے ہم ذخائر  کا خاکہ درج ذیل ہے۔

اس شعبے میں دنیا کی بڑی لائبریریوں سمیت علوم اسلامیہ کے خصوصی ذخیرہ ہائے کتب کا تعارف دیا جارہا ہے۔

علوم اسلامیہ کے اہم کتب خانے

علوم اسلامیہ سے متعلق کتب کے ذخیرے تمام لائبریریوں میں مل جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہر لائبریری میں ہر موضوع کی تمام کتب موجود نہیں ہوتیں۔ اگرچہ ڈیجٹلائزیشن کے رجحان نے کتب بینی کے ذوق اور شوق دونوں کو متاثر کیا ہے مگر باحثین اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ تحقیق کے لیے مطلوب ہر کتاب ای بکس کی شکل میں نہیں ملتی اور نتیجہ خیز گہرے مطالعے کے لیے اسکرین پہ نظر آنے والی کتاب کافی نہیں ہوتی۔ الغرض لائبریری کی ضرورت کبھی کم نہ ہوگی۔اس لیے کتب خانوں/ لائبریریز سے واقفیت بھی ضروری ہے۔

اسلامی مخطوطات کے ذخیروں کا تعارف

مخطوطات پر تحقیق علوم اسلامیہ کا ایک اہم باب ہے۔ مخطوطات پر تحقیق سے پرانا ذخیرہ Rephraseہوجاتا ہے۔ لوگوں کے لیے استفادہ ممکن ہوجاتا ہے۔ نسخوں کے درمیان موازنہ ہوجاتا ہے اور ایک سے زیادہ نسخوں سے مراجعت کی وجہ سے متن کی صحت اور استناد کا یقین ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات مخطوطے کی دریافت تحقیق کی دنیا میں ایک نیا موڑ ثابت ہوتی ہے جیسے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی دریافت جو حدیث کے استناد کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ثابت ہوئی ۔ مخطوطات پر تحقیق سے قدیم ذخیرے اور بنیادی ماخذ تک رسائی میں سہولت ہو جاتی ہے۔

عرب دنیا میں اسلامی مخطوطوں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے اور مخطوطات کی جمع وتدوین کے ساتھ اہل عرب خصوصی شغف رکھتے ہیں۔ ایک تو اس وجہ سے کہ اسلامی مخطوطوں  کا بڑا ذخیرہ عربی زبان میں  ہے جو عرب کی مقامی زبان ہے ۔ دوسری وجہ یہ کہ عربوں کی تاریخ اسی سے وابستہ ہے۔عرب ممالک میں مخطوطات کے بڑے بڑے مراکز قائم ہیں۔ عرب میں مخطوطوں کے انفرادی ذخیروں کا رجحان اگرچہ اب بھی موجود ہے مگر حالات کے اتار چڑھاؤ کے باعث انفراد ذخیرے بڑی لائبریریوں میں ضم ہوتے جارہے ہیں۔ غیر سرکاری سطح پر عرب کے بڑے پبلشنگ ہاؤسز نے ان مخطوطوں کے مرکز قائم کیے ہیں جو تجارتی ضروریات کے ساتھ ساتھ قدیم ادبی ورثے کے بھی محافظ ہیں۔ عربوں کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنے ذخائر کو ڈیجیٹلائزڈ کردیا ہے بلکہ مغرب کے اداروں اور یونیورسٹیز کے اشتراک سے انہوں نے باحثین کے لیے آن لائن تلاش کی سہولت بھی دے رکھی ہے۔ جب کہ برصغیر پاک و ہند میں اس قسم سطح کی کوئی کوشش تا حال نہ کی جاسکی ہے۔ اس کے علاوہ عربوں کے ہاں طباعت کا بھی اعلی معیار اور ذوق موجود ہے۔عربوں نے مخطوطات پر بڑا کام کیا ہے۔  عرب میں اس تراث پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔  ذیل میں مخطوطات کے بڑے ذخائر کا تعارف دیا جارہا ہے۔

  برصغیر پاک و ہند میں علوم اسلامیہ سے شغف رکھنے والوں نے تصنیف و تالیف میں تاریخ رقم کی ہے۔ جس دور میں چھاپہ خانے ایجاد نہیں ہوئے تھے یا ان تک رسائی ہر صاحب علم کی دسترس میں نہیں تھی تب لوگوں نے اپنی بازیافتوں اور یادداشتوں کو مخطوط کی شکل میں محفوظ کیا۔ یہی مخطوطے یا بعض کتب کے حواشی کتاب فہمی کے ایسے معیار کے حامل بھی ثابت ہوئے کہ بعد کے زمانوں میں ان کی تجدید اور ری فریزنگ کرکے من وعن شائع کیے جاتے رہے۔ عربی اور فارسی کتب کی بے شمار شروحات اور حواشی آج بھی ان اہل ذوق کی استعداد اور لیاقت کی گواہی دیتے ہیں۔

انحطاط کے دور میں یہ تحریک ختم ہوگئی اور علوم اسلامیہ میں تحقیقات کو لوگوں کی وہ توجہ حاصل نہ رہی تو دیگر علوم کی طرح علوم اسلامیہ سے شغف رکھنے والے بھی پس پردہ چلے گئے۔ ان لوگوں نے انفرادی طور پر مخطوطات کو اپنے ذوق کے مطابق جمع کیا۔ یہ کوششیں کوئی منظم نہیں تھیں کہ جنہیں یک بارگی دریافت کرلیا جاتا۔ حالات کے اتار چڑھاؤ میں بہت سے ذخیرے نایاب ہوگئے اور کچھ ذخیرے منظر عام پر بھی آئے۔ مخطوطوں کی ڈیجیٹلائزیشن کے رجحان کے باعث یہ ذوق فی زمانہ ختم ہورہا ہے۔ پرانے ذخیرے بھی جہاں جہاں موجود تھے وہ بھی رفتہ رفتہ لائبریریوں کی تحویل میں آگئے ہیں۔ یہاں ان مخطوطوں کے ذخائر کا مختصر تعارف موجود ہے۔

مغرب میں اسلامی مخطوطوں کے بے شمار ذخیرے موجود ہیں۔ مغرب میں مخطوطوں کی آمد کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ مشرق سے جاکر بسنے والے، جنگوں اور لڑائیوں کے سلسلے میں جانے والے، مشرقی علوم حاصل کرکے مغرب واپس جانے والے افراد کے ذریعے یہ مخطوطے سفر کرکے مغرب میں پہنچے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے جہاں جہاں سلطنت قائم کی وہاں علمی انقلاب آیا اور اس علمی تحریک میں علم  کے شوق میں لوگوں نے لائبریریاں بنائیں۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ  ساتھ وہ لائبریریاں سیاسی اور جنگی حالات میں ضائع ہوگئیں یا جان بوجھ کرکردی گئیں۔ یورپ کی نشأۃ ثانیہ کے دور میں ان ذخائر کو دوبارہ محفوظ کرنے کی تحریک شروع ہوئی اور جہاں جہاں یہ نسخے موجود تھے ، سامنے آ نے لگے اور یوں ان کا ذخیرہ محفوظ کرلیا گیا۔ ان مخطوطات کا کچھ حصہ عرب اورافریقہ کے مہاجرین کے ہاتھوں پہنچا جو اپنے علاقے چھوڑ کر مغرب میں آوارد ہوئے تھے۔ جب کہ موجود ذخائرمیں سب سے بڑا حصہ ان مخطوطات کا ہے جو اہل مغرب اپنے نوآبادیاتی دور میں مشرق سے اٹھا کر مغرب میں لے آئے۔

اہل ذوق بڑی محنت کے بعد مخطوطات جمع کرتے ہیں اور ان کی حفاظت، تدوینِ نو کا انتظام کرتے ہیں۔ باحثین اس پر تحقیق و تنقید کے بعد انہیں  جدید معیار کے مطابق پیش بھی کرتے ہیں۔ علوم اسلامیہ میں تحقیق کرنے والوں کو ان ذخیروں  سے رجوع کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ اس لیے یہاں ان ذخیروں کا تعارف دیا  جارہا ہے۔

 

  • تمام
  • پاک وہند میں اسلامی مخطوطے
  • عرب دنیا میں اسلامی مخطوطے
  • مغرب میں اسلامی مخطوطے