انسپائریشن

اسلامی تحقیق کے اصول۔ ڈاکٹرمحمد رفیع الدین

ماہنامہ ’البرہان‘ لاہور۔ ستمبر 2017 ۔ ذی الحجہ1438ھ

اسلامی تحقیق کے اصول۔ ڈاکٹرمحمد رفیع الدین

اسلامی تحقیق کے معنی:

اس وقت ملک میں اسلامی تحقیق کے کئی ادارے کام کر رہے ہیں۔ جن میں بعض حکومت کی سرپرستی میں ہیں اور بعض پرائیویٹ، لیکن افسوس ہے کہ ابھی تک ہمارے ملک میں اسلامی تحقیق کا مفہوم واضح نہیں۔ اسلام جیسا کہ اسے حضور سرور کائناتﷺ ہمارے پاس لائے ہیں، ان مقدس تعلیمات کا نام ہے جو قرآن اور حدیث میں موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اسلامی تحقیق کی تعریف اس طرح سے کرنی چاہئے کہ اسلامی تحقیق دہ تحقیق ہے، جس کا موضوع ہماری ان مقدس کتابوں کے مشتملات ہوں اور جس کا مقصد یہ ہو کہ ان مشتملات کو لوگوں کے لیےزیادہ قابل فہم بنایا جائے۔

اس تعریف کی روشنی میں ہم بآسانی معلوم کر سکتے ہیں کہ اسلامی تحقیق میں کونسی چیزیں شامل ہیں اور کونسی شامل نہیں۔ مثلاً اس میں وہ سب تحریریں شامل ہوں گی جو مسلمان علماء (ا) ان مقدس کتابوں کے متعلق یا (ب) ان کتابوں کے متعلق جو ان مقدس کتابوں کے متعلق لکھی گئی ہوں، ماضی میں لکھ چکے ہیں یا آئندہ لکھیں گے۔ پھر چونکہ یہودی یا عیسائی مستشرقین نعمت ایمان سے بے نصیب ہونے کی وجہ سے ہماری مقدس کتابوں کو مقدس کتابوں کی حیثیت سے نہیں سمجھ سکتے اور ان سے توقع بھی نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان کو مقدس کتابوں کے مقدس مشتملات کی حیثیت سے دوسروں کے اذہان کے قریب لانے کی کوشش کر سکتے ہیں یا ایسا کرنے کی نیت ہی رکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ اسلامی تحقیق سے وہ وہ تمام تحریں خارج سمجھی جائیں گی جو یہودی اور عیسائی مستشرقین ہماری کتابوں کے متعلق یا ان کتابوں کے متعلق جو ہماری مقدس کتابوں کے متعلق لکھی گئی ہوں، ماضی میں لکھ گئے ہیں یا آئندہ لکھیں گے۔

میکانکی اور اصلی اسلامی تحقیقات:

اسلامی تحقیق کی دو قسمیں ہیں یا تو یہ میکانکی ہوتی ہے یا اصلی، مثلاً مقدس کتابوں یا مقدس کتابوں پر لکھی ہوئی کتابوں میں سے کسی کتاب کی کوئی لغات یا کوئی اشاریہ تیار کرنا یا اس کے مشتملات کا ترجمہ کرنا یا ان کو نئی ترتیب دینا یا ان کا اختصار لکھنا یا کسی ایسے تاریخی قسم کے یا کسی اور نوعیت کے مواد کا جو ان کے مضمون سے تعلق رکھتا ہو اس غرض سے جمع کرنا کہ اس کے حوالے آسانی سے میسر آ جائیں۔ میکانکی اسلامی تحقیق ہے جبکہ مقدس کتابوں کے مضمون کی علمی تشریح یا تفسیر یا توسیع کرنا اصلی اسلامی تحقیق ہے۔ اصلی اسلامی تحقیق میکانکی اسلامی تحقیق سے بدر جہا زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق اسلام اور اس کی روح سے ہوتا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو درحقیقت اسلامی تحقیق سے ایسی ہی تحقیق مراد ہے۔ اس قسم کی اسلامی تحقیق کے لیے تعلیمات اسلام کی گہری بصیرت کی ضرورت ہے اور اسلام کی ایسی بصیرت صرف اس عالم دین کا حصہ ہو سکتی ہے جو اسلام پر ایسا خالص اور پختہ ایمان رکھتا ہو کہ وہ خدا اور اس کے رسول(ﷺ) کی شدید محبت کی صورت اختیار کرے اور جو اسلام کے مذہبی اور اخلاقی ضبط اور نظم کو دل و جان سے قبول کر چکا ہو اور اس پر متواتر عمل پیرا ہو۔ پھر یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی جب تک کہ کوئی عالم دین مقدس کتابوں کے بار بار کے مطالعہ سے ان کی روح میں نہ گھس جائے اور رسول اللہﷺ کی دلی اطاعت سے انسان اور کائنات کا وہی نظریہ پیدا نہ کر لے جو خدا نے آپ کی معرفت ہم تک پہنچایا ہے۔ چونکہ اس قسم کی اسلامی تحقیق صرف خدا اور رسول (ﷺ) اور اسلام کی شدید محبت کے سرچشمہ سے ہی پھوٹ سکتی ہے لہٰذا وہ دوسروں میں بھی اسلام کی محبت پیدا کرتی ہے۔ اس قسم کی اسلامی تحقیق کی مثال شاہ ولی اللہ، غزالیؒ، رومیؒ، محی الدین ابن العربیؒ، ابن تیمیہؒ، حافظ ابن قیمؒ، مولانا اشرف علی تھانویؒ اور اقبالؒ ایسے حکمائے دین کی کتابیں ہیں۔

اصلی اسلامی تحقیق کے وظائف:

چونکہ اصلی اسلامی تحقیق ہمیشہ اسلام کی عقلی اور علمی بنیادوں کے خلاف زمانہ کے عقلی اور علمی چیلنج کا جواب ہوتی ہے لہٰذا وہ دو اہم وظائف ادا کرتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ ان فلسفیانہ افکار کا بالواسطہ یا بلاواسطہ ابطال کرتی ہے جو اس خاص زمانہ میں رواج پاکر مسلمان کے یقین و ایمان پر ایک مخالفانہ اثر پیدا کر رہے ہوں اور دوسرا یہ کہ وہ اسلام کی صداقت کو ثابت کرتی ہے اور تمام صحیح تصورات کو جو اس زمانہ میں دستیاب ہو سکتے ہوں کام میں لاکر اسلامی افکار و اعتقادات کی مدافعت کرتی ہے۔ یہ دو وظائف ادا کرنا اس کے لیے اس طرح سے ممکن ہوتا ہے کہ اسلام کا محقق اسلامی کی شدید محبت اور اس کی صحیح تشریح اور تعبیر کرنے کی شدید خواہش کی وجہ سے ایک ایسا صحیح وجدن حاصل کر لیتا ہے اور اشیاء اور حقائق کے بارہ میں ایک ایسا صحیح نقطہ نظر پیدا کر لیتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ صحیح افکار کو غلط افکار سے بآسانی ممیز کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

میکانکی اسلامی تحقیق کے وظائف:

میکانکی اسلامی تحقیق کیلئے اسلام کی کسی بصیرت کی ضرورت نہیں ہوتی اور چونکہ یہ ضروری نہیں کہ وہ اسلام کی محت کا نتیجہ ہو لہٰذا وہ اسلام کی محبت کو منعکس کرتی ہے اور نہ اسے دوسروں میں پیدا کر سکتی ہے۔ میکانکی اسلامی تحقیق کی اہمیت فقط یہ ہے کہ وہ اسلام کے عام طالب علم کے لیے اسلام کی مقدس کتابوں کا مطالعہ آسان کرتی ہے اور ان مقدس کتابوں کے مضمون کو اصلی اسلامی تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے عالم دین کی آسانی دسترس میں لاکر اس کی تحقیقی ضرورتوں کی خدمت اور اعانت کرتی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اصلی اسلامی تحقیق سے شغف رکھنے والا عالم دین ایک ایسا ماہر تعمیرات ہے جو ایک خوبصورت عمارت کا نقشہ تیار کرکے اسے تعمیر کی ساری منزلوں سے گزارتا ہے اور میکانکی اسلامی تحقیق پر کام کرنے والا پڑھا لکھا آدمی وہ جفا کش مزدور ہے جو تعمیر میں کام آنے والی اینٹوں کو ڈھو کر اس ماہرِ تعمیرات کے قریب لے آتا ہے۔

مستشرقی تحقیق:

ہو سکتا ہے کہ بعض وقت اسلام کی مقدس کتابوں پر خالص میکانکی تحقیق کا باعث یہ ہو کہ تحقیق کرنے والے کو اسلام سے محبت ہے لیکن اس کے کامیاب تتبع کے لیے اسلام کی صداقت پر ایمان و یقین کی موجودگی ایک شرط کے طور پر قطعاً ضروری نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں یہودی اور عیسائی مستشرقین بھی اسے بڑی کامیابی کے ساتھ چلا رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس دور میں اس کے اصلی موجد مغرب کے یہودی اور عیسائی مستشرقین ہی ہیں لیکن ایسی حالت میں اسے اسلامی تحقیق کا نام دینا ہرگز درست نہیں۔ کیوں کہ اس حالت میں یہ ایک وسیع تر تحقیق کا حصہ ہے جسے مستشرقی تحقیق کہا جاتا ہے اور جسے مغرب میں علماء کے ایسے گروہ نے ایجاد کیا تھا جو اپنے آپ کو ’’مستشرقین‘‘ کا نام دیتا تھا کیونکہ وہ مشرقی ادب اور السنہ سے دلچسپی رکھتا تھا اور انہیں جاننا چاہتا تھا۔ مستشرقی تحقیق سراسر ایک میکانکی عمل ہوتا ہے اور اس کا دائرہ کار یہ ہوتا ہے کہ ماضی میں عربی، فارسی، سنسکرت، چینی انڈونیشی اور ترکی ایسی مشرقی زبانوں میں تاریخ، مذہب، فلسفہ، لغت، سائنس اور ادب وغیرہ کے موضوعات پرجو کتابیں لکھی گئی تھیں ان کا ترجمہ یا حاشیہ یا اختصار یا اشاریہ تیار کیا جائے یا ان کی تشریح یا توسیع یا تنقید بہم پہنچائی جائے۔

شروع میں اس تحقیق کے اغراض و مقاصد کلیتہً مشنری یا تبلیغی تھے۔ اس کے بعد جب یورپی طاقتیں مشرق میں اپنی نو آبادیاں بنانے لگیں تو اس کے اغراض و مقاصد تبلیغی ہونے کے علاوہ انتظامی اور سیاسی بھی ہو گئے۔ مستشرقی مطالعات سے اہل مغرب کا ایک مقصد بلاریب یہ ہے کہ وہ اپنے ذوق دریافت کو مطمئن کریں اور ایک ایسی تہذیب کے مخفی آثار کو بے نقاب کرکے اپنی تفریح کا سامان بہم پہنچائیں جو ان کے خیال میں ہمیشہ کے لیے مٹ چکی ہے اور اپنی جگہ پر اس تہذیب کو چھوڑ گئی ہے جو اس کے کئی درجہ بلند تر اور برتر ہے اور جس کے وہ خود علمبردار ہیں۔ ان کا مقصد ویسا ہی ہے جیسا کہ ٹیکسلا کی کھدائی سے ہمارا ہے کہ ہم اس کے ذریعہ سے ماضی کے متعلق لوگوں کی معلومات کی خواہشات کی تشفی کے لیے یا ان کی تفریح کا ایک شغل پیدا کرنے کیلئے ایک ایسی پرانی تہذیب کے دفن کئے ہوئے نشانات کو بے حجاب کرتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے مٹ چکی ہے۔ اب جبکہ مغرب کی تمام یونیورسٹیاں اپنے ہاں مستشرقی مطالعات کی کرسیاں قائم کرکے مستشرقی تحقیق کی سرپرستی کر رہی ہیں مستشرقی تحقیق مغرب اور مشرق دونوں میں ایک باعزت اور زر آفریں پیشہ بن گئی ہیں۔ وقت کے گزرنے سے مستشرقین نے مستشرقی تحقیق کا ایک خاص فن ایجاد کر لیا ہے جو ہمارے السنہ شرقیہ کے طالب مغرب کی یونیورسٹیوں میں ان سے سیکھتے ہیں۔ اب مشرق کی بہت سی یونیورسٹیوں میں بھی مشرقی علوم کی کرسیاں قائم ہو چکی ہیں اور یہ کرسیاں بالعموم ان لوگوں نے سنبھال رکھی ہیں۔ جن کو مغربی مستشرقین نے مستشرقی تحقیق کے فن کی تربیت دی ہے۔ لیکن جہاں تک اسلامی تحقیق کا تعلق ہے یہ فن اس کے میکانکی حصہ کیلئے کسی قدر سود مند ہو تو ہو ورنہ محض بیکار ہے۔

اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب:

عربی اور فارسی کی کتابوں پر جو بالعموم مسلمانوں نے لکھی ہیں، مستشرقین کی تحقیق کا سبب نہ اسلام کی محبت ہے اور نہ مسلمان علماء اور فضلا کی قدردانی بلکہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان مستشرقین کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بالعموم ایک شدید قسم کا تعصب موجود ہوتا ہے لہٰذا جب بھی وہ اپنے میکانکی کام سے ذرا ہٹ کر مسلمانوں کے معتقدات اور نظریات کی توجیہہ کرنے لگتے ہیں تو ان سے یہ توقع کرنا ہی عبث ہوتا ہے کہ وہ اسلام کے متعلق کوئی موافقانہ رائے قائم کریں گے۔ یہی سب ہے کہ ان کی تحقیق کا ایک حصہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اعتراضات سے معمور ہے۔ لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کے کام کے اس حصہ کو نظرثانی کے بعد ان کی غیر منصفانہ تنقید سے پاک کریں۔ لیکن جس حد تک مستشرقین کے کام کی اس قسم کی نظرثانی مسلمانوں کی ایسی تصنیفات کے متعلق ہو گی جو اسلام کے علاوہ اور موضوعات پر ہیں ہم اسے میکانکی قسم کی اسلامی تحقیق بھی نہیں کہہ سکیں گے۔ بلکہ ہم اسے فقط ایسی مستشرقی تحقیق کا نام دے سکیں گے جو مسلمانوں کے ہاتھوں سے انجام پائی ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایسی کتابوں پر جو اسلام کے علاوہ اور موضوعات پر ہوں۔ مسلمانوں کی ساری تحقیق کو ہم مستشرقی تحقیق ہی کا نام دے سکتے ہیں۔

ایک غلط نام

بدقسمتی سے اس دوسری قسم کی تحقیق کو بھی غلط طور پر اسلامی تحقیق کا نام دیا جاتا ہے اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی عربی اور فارسی کتابوں پر تحقیق ہے۔ لیکن درحقیقت عہد قدیم کے مسلمانوں نے اسلام کے علاوہ اور موضوعات پر جو کتابیں لکھی ہیں ان کو اسلامی کتابیں کہنے کا جواز اتنا ہی ہے جتنا اس بات کا جواز کہ ہم ایک مسلمان کے ہاتھ کے بنے ہوئے میز کو اسلامی میز کہہ دیں یہ کتابیں اسلامی کتابیں ہیں اور ان پر تحقیق اسلام کی تحقیق ہے تو پھر اس زمانہ کے مسلمانوں نے اسلام کے علاوہ اور موضوعات پر جو کتابیں لکھیں ہیں، کیا وجہ ہے کہ ہم ان کو اسلامی کتابیں نہ کہیں اور ان پر تحقیق کو بھی اسلامی تحقیق کا نام نہ دیں؟ لیکن نہ ہم ان کتابوں کو اسلامی کتابیں کہتے ہیں اور نہ ان پر تحقیق کو اسلامی تحقیق کا نام دیتے ہیں تو پھر ہم کو اس بات پر اصرار کیوں ہے کہ گزشتہ مسلمانوں کی لکھی ہوئی اس قسم کی کتابوں کو اسلامی کہہ کر پکاریں۔

آسمانی یا الہامی علم کے برخلاف ذہنی علم غلط بھی ہو سکتا ہے اور صحیح بھی۔ غیر واضح بھی ہو سکتا ہے اور واضح بھی۔ منظم بھی ہو سکتا ہے اور غیر منظم بھی، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ یہودی یا عیسائی یا اسلامی ہو۔ علم ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے۔ وہ ایک ہی منبع سے صادر ہونے ولا ایک ہی نور ہے جو کبھی ایک فرد پر اور کبھی دوسرے فرد پر، کبھی ایک قوم پر اور کبھی دوسری قوم پر اپنی خوشی سے چمکتا ہے۔ ذہنی علم مذہبوں اور قوموں سے بالا ہے یہی وجہ ہے جو لوگ اس علمکی تحصیل یا تحقیق میں منہمک ہوتے ہیں۔ وہ مذہب یا قومیت سے قطع نظر کرکے ایک دوسرے سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔

مستشرقی تحقیق کا ایک خاصہ:

چونکہ مستشرقی تحقیق فقط ایک عمل ہوتا ہے اور اس کے پاس کوئی نئی چیز کسی کو دینے کے لیے نہیں ہوتی۔ اس کا ایک خاصہ یہ ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت زور دیتی ہے مثلاً ایک مستشرق اپنی پوری زندگی یہ ثابت کرنے پر صرف کر دے گا کہ ایک مصنف یا اس کی کسی کتاب کا صحیح نام یہ ہے اور وہ نہیں یا فلاح شخص جس مقام پر پیدا ہوا تھا وہ فلاں گائوں سے اتنے میل شمال کو تھا اور جنوب کو نہیں یا جس تاریخ کو پیدا ہوا تھا وہ پانچ دن پہلے تھی اور پیچھے نہیں۔ اگرچہ وہ شخص خود ایک عالم کے طور پر کوئی اہمیت نہ رکھتا ہو اور بالکل اس قابل ہو کر فراموش کر دیا جائے۔ لیکن وہ اس لئے اہم سمجھا جاتا ہے کہ کسی پرانی کتاب میں اس کا نام آ گیا ہے۔

مسلمان مستشرق کا اصلی کام:

اگر مستشرقی تحقیق کا مقصد یہ ہوتا کہ مشرق کے گزشتہ علماء اور فضلاء کے علمی کارناموں کو اجاگر کیا جائے (اور اس میں شک نہیں کہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ مشرق علوم و فنون میں کرۂ عرض کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ حصہ تھا) اور اس کا تعلق دور حاضر کی علمی ترقیوں کے ساتھ واضح کیا جائے تو پھر بھی یہ اسلامی تحقیق کا کام نہ ہوتا۔ اگرچہ یہ عمومی طور پر علم کی بہت بڑی خدمت ہوتی کیوں کہ اس سے نوع انسانی کی علمی جدوجہد کے ماضی کو اس کے حال کے ساتھ جوڑ کر اس کے تسلسل کو آشکار کرنے میں مدد ملتی ہے لیکن اس وقت مستشرقی تحقیق کا کام نہ مغرب میں ان خطوط پر ہو رہا ہے اور نہ مشرق میں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ کام بہت مشکل ہے کیونکہ اس کے لیے نہ صرف عہد قدیم کی علمی دنیا سے بلکہ عصر حاضر کی علمی دنیا سے بھی پوری طرح باخبر ہونا ضروری ہے۔ لیکن یہ وہ اصلی کام ہے جو مستشرقین کو بالخصوص مسلمان مستشرقین کو انجام دینا چاہئے۔

آخر جہاں تک ہم مسلمانوں کا تعلق ہے، ہمارا مقصد علم کی جستجو ہونا چاہئے نہ کہ مشرقی علم کی جستجو۔ علم نہ مشرقی ہو سکتا ہے، نہ مغربی۔ کم از کم ہمارے بزرگوں نے علم کی کوئی ایسی تقسیم نہ کی تھی اور نوع انسانی کے جن بیش بہا علمی کارناموں کا سہرا آج ان کے سر باندھا جا رہا ہے اس کی وجہ یہی ہے۔ اگر درخشندہ علمی ستاروں کا وہ طویل و عریض جمگھٹا جو مسلمان علماء اور فضلاء پر مشتمل تھا اور اب غائب ہو چکا ہے، یکایک پھر زندہ ہو جائے تو وہ سب بلا توقف اس بات کی کوشش کریں گے کہ مغرب کے سارے علوم کو سیکھ کر ان کے ماہر بن جائیں۔ اگر مستشرقی تحقیق سے مدد فی الواقع علم کی جستجو ہے تو یہ بات اس مدعا سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے کہ ایسی تحقیق یا ایسے مطالعہ کے لیے لفظ مستشرقی کا اور مسلمان علماء کے لیے لفظ مستشرقین کا استعمال بالکل ترک کر دیا جائے۔ ان الفاظ کا استعمال ہم نے درحقیقت اہل مغرب کی کورا نہ تقلید میں شروع کیا تھا جو مستقل طور پر مغرب میں رہتے ہیں اور اپنا ایک مستقل مشرق رکھتے ہیں۔ ہم مشرق میں بھی رہتے ہیں اور مغرب میں بھی اور تمام زبانیں ہماری ہیں۔ دنیا بھر میں مشکل سے کوئی ایسی زبان ہو گی جو کم از کم چند مسلمانوں کی مادری زبان نہ ہو۔ تمام صحیح علم جو مشرق یا مغرب میں آج تک پھیلا ہوا ہے، ہمارا ہے کیونکہ ہمارے خدا کی کائنات کا علم ہے۔ یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ ہم ’’مستشرقی تحقیق‘‘ کے نام کو ’’علوم قدیمہ و وسطیٰ کی تحقیق‘‘ کے نام سے بدل دیں اور اس کے دائرہ کار کو وسعت دے کر اس میں ان کتابوں پر تحقیق کو بھی شامل کر لیں جو قدیم زمانہ میں نہ صرف عربی، فارسی، سنسکرت، چینی اور ترکی ایسی زبانوں میں لکھی گئی تھیں، جن کو مشرقی زبانیں کہا جاتا ہے بلکہ لاطینی اور یونانی ایسی قدیم یورپی زبانوں میں بھی لکھی ہوئی موجود ہیں۔

مستشرقی تحقیق اسلامی تحقیق نہیں ہے:

بہرحال مستشرقی تحقیق اور اسلامی تحقیق میں کوئی قدر مشترک نہیں اور مستشرقی تحقیق کو اسلامی تحقیق سے قطعی طور پر الگ رہنا چاہیے۔ جیسا کہ مغرب میں دستور ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس کو اپنی یونیورسٹیوں کے السنہ شرقیہ کے شعبوں کے ندر محدود کر دیں۔ اسلامی تحقیق کا کوئی ادارہ اپنے نام اور کام کے ساتھ ہم آہنگ رہتے ہوئے اس سے کوئی سروکار نہیں رکھ سکتا۔ میکانکی اسلامی تحقیق اور اصلی اسلامی تحقیق بعض اوقات ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتی ہیں۔

بعض اوقات اصلی اسلامی تحقیق اور میکانکی اسلامی تحقیق ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے اصلی تحقیق کی کسی پیداوار کے اندر مقدس کتابوں کے مشتملات کی ترتیب نو یا ترکیب جدید کی صورت میں میکانکی تحقیق کے عناصر شامل ہو جاتے ہیں یا میکانکی تحقیق پر ان مشتملات کی تشریح یا تفسیر کا بھی ایک رنگ چڑھ جاتا ہے۔ تاہم اسلامی تحقیق کی کسی پیداوار کی قدر و قیمت کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ اس میں اصلی اسلامی تحقیق کا عنصر کس قدر موجود ہے۔ اگر اس میں درستی اور علم کے اعتبار سے بلند معیار رکھنے والی اصلی اسلامی تحقیق کا عنصر زیادہ ہو گا تو اس کی قدر و قیمت بھی زیادہ ہو گی۔ یہی سبب ہے کہ اقبالؒ، ابن تیمیہؒ، شاہ ولی اللہؒ، غزالیؒ، رومیؒ اور محی الدین ابن عربیؒ کی اسلامی تحقیق دوسرے سینکڑوں علماء متقدین و متاخرین کی تحقیق سے بدر جہا زیادہ قیمتی سمجھی جاتی ہے۔ ان میں سے ہر عالم دین نے اپنے زمانہ میں اسلام کی وہ جدید علمی اور عقلی تشریف بہم پہنچائی ہے جس کی اس زمانہ میں لوگوں کو ضرورت تھی۔ اقبال نے اسلام کی جو تشریح کی ہے، اس کی شدید ضرورت کا زمانہ ابھی موجود ہے۔

وحی اور عقل:

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کی ضرورت ہی کیا ہے کہ عقلی اور علمی نقطہ نظر سے اسلام کی کوئی تشریح کی جائے اور بار بار کی جائے۔ کیا یہ بات صحیح نہیں کہ قرآن اور حدیث دونوں مل کر انسانی افراد کے اعتقاد و عمل کی رہنمائی کرنے کے لیے پوری طرح کافی ہیں۔ کیا قرآن اور حدیث نے پہلے ہی ضروری حد تک اپنے مطالب کی وضاحت نہیں کر دی؟ کیا ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم خدا کی وحی کے فرامین اور خدا کے رسول کے ارشادات میں ایک پچر اپنی طرف سے بھی لگائیں اور ان میں اپنی انسانی سمجھ بوجھ اور انسانی عقل و فراست کی بنا پر بھی کچھ باتوں کا اضافہ کریں تاکہ وہ زیادہ قابل فہم اور زیادہ مفید بن جائیں بالخصوص اس حقیقت کے پیش نظر کہ ہم کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ انسان کی ہدایت کے ایک ذریعہ کے طور پر انسانی عقل خدا کی وحی کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ خدا کی وحی کے مقابلہ میں عقل انسانی کا ہرگز کوئی مقام نہیں کہ وہ انسان کو یہ بتا سکے کہ انسان اور کائنات کی حقیقت کیا ہے اور اس حقیقت کی روشنی میں انسانی فرد اور جماعت کو اپنی عملی زندگی کی تشکیل کس طرح سے کرنی چاہیے۔ اس کے باوجود خدا کی وحی اور انسانی عقل کے درمیان ایک ایسا قدرتی رشتہ ہے جو ٹوٹ نہیں سکتا اور جس کی بنا پر ذیل کے حقائق بالکل درست اور ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالا ہیں۔

اوّل: یہ کہ ہم خدا کی وحی کو اس وقت تک قبول نہیں کر سکتے جب تک کہ ہماری عقل اس وجدان یا یقین کی طرف رہنمائی نہ کرے کہ وہ درحقیقت خدا کی وحی ہے اور حق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے انسان کو عقل سے کام لینے کی بار بار ہدایت کی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم ہر مدعی نبوت کو نبی نہیں مانتے اور جھوٹے اور سچے نبی میں اپنی عقل کو کام میں لاکر فرق کرتے ہیں؟

دوم: یہ کہ خدا کی وحی ایسے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے جو آخر کار ضبط تحریر میں آ جاتے ہیں اور ایک خارجی وجود رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی پڑھنے والا یا سننے والا ان الفاظ پر ایمان لائے اور ان کے مطابق عمل کرے یہ ضروری ہے کہ وہ اس کے ذہن کے اندر کسی مطلب یا معنی یا مدعا میں تبدیل ہوں۔ جب تک کہ وہ ایک خارجی حقیقت سے ایک داخلی احساس میں تبدیل کرنے والے اس عمل میں سے نہیں گزرتے اور یہ یاد رہے کہ تبدیلی کا یہ عمل سراسر ذہنی اور انسانی ہے۔ خدائی یا آسمانی نہیں۔ دوسرے لفظوں میں جب تک کہ وہ ایک علمی اور عقلی توجیہہ کا لباس نہیں پہن لیتے اس وقت تک نہ تو وہ ایمان پیدا کر سکتے ہیں اورنہ عمل۔ یہی سبب ہے کہ ایک ہی وحی کا اتباع کرنے والے لوگوں کے اعتقادات اور اعمال مختلف ہیں اور اسلام جو ایک ہی ہے مذہبی فرقوں اور مذہبی تحریکوں میں اس قدر بٹا ہوا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم قرآن حکیم کے مطالب کو سمجھتے اور سمجھاتے اور سیکھتے اور سکھاتے ہیں۔ ہمارے اس فعل کا مطلب یہ ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ کو اس علمی اور عقلی توجیہہ کا لباس پہنانا چاہتے ہیں جو ہمارے خیال کے مطابق ان کی اپنی صحیح توجیہہ ہے۔

سوم: یہ کہ خدا کی وحی ہمیں انسان اور کائنات کی حقیقت کے متعلق ایک صحیح نظریہ عطا فرماتی ہے اور فلسفہ کی صورت میں انسان کی عقل بھی انسان اور کائنات کا صحیح نظریہ بہم پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔ عقل انسان کا یہ وظیفہ جو اس نے خود بخود اپنے لئے تجویز کر لیا ہے بیک وقت خدا کی وحی کا وظیفہ بھی ہے۔ لہٰذا عقل انسانی خدا کی وحی کے بیانات قبول کر لینے کے بعد بھی ان کو زیر غور لانے کی طرف مائل رہتی ہے۔ یہ چاہتی ہے کہ جن سوالات کا قطعی جواب خدا کی وحی پہلے ہی دے چکی ہے یہ ان سوالات کا کوئی ایسا جواب بھی ڈھونڈ نکالے جو اس کے اپنے لئے بھی مکمل طور پر تسلی بخش ہو۔ مثلاً ایک سوال یہ ہے کہ کیا خدا فی الواقع موجود ہے؟ ایک آدمی اس سوال کے اس جواب پر جو خدا کی وحی نے دیا ہے مکمل یقین اور ایمان رکھ سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک انسان کی حیثیت سے یعنی ایک صاحبِ عقل و فہم وجود کی حیثیت سے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس سوال کا وہ جواب بھی اپنے پاس موجود رکھے جو اس کی عقل اس کیلئے مہیا کرتی ہے۔ لیکن جب وہ ایسا کرے گا تو وہ مجبور ہو گا کہ دونوں کے جوابات کے اندر مطابقت پیدا کرے اور اسے قائم رکھے۔ ورنہ وہ دونوں سے پوری طرح مطمئن نہ ہو سکے گا۔

علمی ترقی کے ہر نئے دور میں اسلام کی نئی عقلی توجیہہ کی ضرورت:

نوع انسانی کا ذہنی علم ہمیشہ ترقی کرتا رہتا ہے اور نئے حکیمانہ افکار کے اس مجموعہ کے اندر جو کسی دور میں رونما ہوتا ہے حق باطل کے ساتھ ملا ہوا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر دور میں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اصلی اسلامی تحقیق کی طرف رجوع کرکے حق کو باطل سے الگ کیا جائے اور غلط اور مخالف اسلامی حکیمانہ تصورات کی تردید کی جائے اور صحیح اور موافق اسلام حکیمانہ تصورات کو کام میں لاکر اسلام کی تائیدِ مزید اور حمایت اور مدافعت کی جائے۔ ہر دور میں اصلی اسلامی تحقیق کے ماہرین کے لیے یہ اہم کام موجود ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے نئے علمی افکار کے دانہ کو کاہ سے الگ کریں، دانہ کو کام میں لائیں اور کاہ کو پھینک دیں کہ ہوائیں اس کو اڑا کر لے جائیں۔

دور حاضر میں اسلام کو حکیمانہ افکار کا چیلنج:

تاہم علمی ترقی کے کسی دور میں بھی اسلام کو حکیمانہ افکار کی طرف سے ایسا زور دار اور خطرناک چیلنج کبھی نہیں دیا گیا جیسا کہ اب دور حاضر کے حکیمانہ افکار نے دیا ہے۔ اس وقت فلسفی، ماہر تاریخ، ماہر اقتصادیات اور ماہر نفسیات سب مل کر اسلام کی جڑوں پر حملہ کر رہے ہیں، میکانکی ارتقاء تحلیل نفسی، حکمیاتی سوشلزم، تاریخی مادیت، منطقی اثباتیت، کرداریت اور موجودیت کے نظریات جن کی مقبولیت اس زمانہ میں ہر روز بڑھتی جا رہی ہے اور جو نوع انسانی کے اعمال و افعال کو نہایت تیزی سے متاثر کر رہے ہیں، ہمارے مذہب کی بنیادوں کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ اگر ہم ان نظریات کے علمی چیلنج کا موثر جواب نہ دیں اور ان کی یقین افروز تردید نہ کریں تو ہم مسلمان کی حیثیت سے زندہ نہیں رہ سکتے اور ان نظریات کا جواب دیتے ہوئے ہمیں اس بات کو بھی یاد رکھنا ہو گا کہ اگر ہمارا جواب دور حاضر کے علمی معیاروں پر پورا نہ اتر سکے اور اپنے استدلال کے حقائق اور تکنیک اور طریقہ سے دنیا بھر میں چوٹی کے علماء اور حکماء کو مطمئن نہ کر سکے تو وہ ہرگز کوئی جواب نہ ہو گا۔ اس قسم کا جواب علماء کرام نے ابھی تک پیدا نہیں کیا۔ کہاں ہیں وہ بزرگان دین جن کو خدا نے مسلمانوں کی قیادت کے بلند مقام پر فائز کیا ہے اور جن کے نور ایمان اور زور قلم نے قرآن کی تفسیروں اور اسلامی کتابوں کے قابل قدر ذخیروں کا ڈھیر لگا دیا ہے؟ وہ کیوں اس خطرہ کو محفوظ نہیں کرتے؟ افسوس کہ وہی علماء دین جو کل تک اسلام اور کفر کی جنگ میں ہر محاذ پر اسلام کی مدافعت کے لیے پیش پیش رہتے تھے آج سو گئے ہیں اور اسلام کو جو نیا خطرہ درپیش ہے مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو اس کے مقابلے کے لیے تیار کرنے کی کوشش کرنا تو درکنار اس کا ذکر تک نہیں کرتے۔ گویا اس کی موجودگی سے ہی ناآشنا ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ غیر مسلم مفکرین بھی جو ہمارے مخالف ہیں۔ اس خطرہ سے ہماری غفلت اور اس کے مقابلہ میں ہماری عافیت کوشی اور سہل انگاری پر ہمیں طعنہ دے رہے ہیں۔ پروفیسر ڈبلیو ڈی سمتھ نےاپنی کتاب ماڈرن اسلام ان انڈیا (MODERN ISLAM IN INDIA) میں لکھا ہے:

’’جہاں دس یا بیس سال پہلے بازاروں کے موڑوں پر مذہبی مناظرے ہوا کرتے تھے اور تعلیم یافتہ مسلمان افکار جدیدکے متعلق کتابیں پڑھ پڑھ اپنا سر کھپاتے تھے، آج مسلمان نوجوان ان علمی مشکلات سے بے خبر اور بے پروا ہے جو زندگی کے صحیح راستہ کی حیثیت سے مذہب کو پیش آتی ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح سے آزاد خیال مسلمانوں نے ان اعتراضات کا قریباً مکمل جواب دیا جو عیسائیوں نے اسلام پر وارد کئے تھے۔ آج تجد پسند مسلمان اس جواب کو کافی سمجھتا ہے اور کوئی مسلمان ایسا پیدا نہیں ہوتا جو جواب دینا تو درکنار ان اعتراضات کا فقط ذکر ہی کرے جو اس زمانہ میں فلسفی، مورخ، ماہر نفسیات اور ماہر اجتماعیات نے اسلام پر اور سارے مذہب پر وارد کر رکھے ہیں۔ جس طرح انیسویں صدی کے کٹڑ مسلمان جو عیسائیوں اور آزاد خیال مغربیوں کے اعتراضات کا جواب دینے سے انکار کرتے تھے اور سر سید احمد اور امیر علی کو ان کا جواب دینے کی وجہ سے برا سمجھتے تھے، معاشرتی قدامت پسندی کا سہارا تھے اسی طرح سے وہ مسلمان بھی جو ان جدید اعتراضات کا جواب دینے سے قطع نظر کرتے ہیں، ان جماعتوں کی ہی اعانت کر سکتے ہیں جو معاشرتی اعتبار سے قدامت پسند ہیں۔‘‘

مسلمانوں سے عصر جدید کے انسان کا مطالبہ:

اسلام نے دور جدید کے انسان کے ذہن میں بہت سے سوالات پیدا کر دیئے ہیں اور وہ مسلمانوں سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ ان کا ایک ایسا جواب مہیا کریں جو مدلل اور حکیمانہ ہو اور اس قابل ہو کہ ایک ذہین اور تعلیم یافتہ آدمی کو قائل کر سکے۔ ان میں سے بعض سوالات یہ ہیں:

1۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ حقیقت کائنات مادی ہے اور روح مادہ کی ایک خاصیت ہے جو اس وقت رونما ہوتی ہے جب مادہ اپنی ترقی اور ترکیب کی ایک خاص حالت پر پہنچ جاتا ہے؟

2۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ مذہب فقط معاشی حالات کی پیداوار ہے اور خود اپنی کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتا؟

3۔ کیا انسان کی زندگی کا معاشی پہلو عمل تاریخ کا محرک نہیں اور کیا مذہب اس عمل تاریخ کی ایک عارضی حالت اور ضمنی یا اتفاقی پیداوار نہیں؟

4۔ کیا مذہب دبی ہوئی جبلت جنس یار کی ہوئی حبِ تفوق یا اٹکی ہوئی غلبہ اور قوت کی خواہش کا غیر فطری اور بے محل اظہار نہیں؟

5۔ کیا مذہب ایک ظالم سوسابٹی کا مصنوعی دبائو نہیں جو اپنی سلامتی کی خاطر فرد کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کچھ غیر فطری پابندیوں اور رکاوٹوں کو جنہیں وہ مذہبی اور اخلاقی اصولوں کا نام دیتی ہے اپنے آپ پر عائد کرے؟

6۔ کیا یہ درست نہیں کہ عمدگی اخلاق ایک نسبتی اصطلاح ہے جس کے معنی مختلف قوموں کے لیےاور مختلف حالات کے اندر مختلف ہوتے ہیں؟

7۔ کیا یہ ممکن ہے کہ خدا کسی انسان پر وحی نازل کرے یا کوئی انسان سچ مچ نبی بن جائے؟

8۔ کیا نبوت (اگر وہ در حقیقت ممکن ہے) ایک ایسا عارضی اہمیت کا واقعہ نہیں جو نوع انسانی کی تاقیامت ترقی کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھ سکتا؟

9۔ کیا انسان کی عقل اسے اپنا نیک و بد سمجھانے کے لیے کافی نہیں کہ کسی بیرونی رہنمائی کی ضرورت ہو؟ جب انسان کو عقل دی گئی ہے تو اس نبوت کی خاص ضرورت کیا ہے؟

10۔ اگر نبوت کوئی ضروری چیز ہے تو یہ ختم کیوں ہو جاتی ہے اور تاقیامت انسان کی رہنمائی کے لیے نئے نئے انبیاء کیوں آتے نہیں رہتے؟ وغیرہ

ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان سوالات کا ایسا جواب تلاش کریں جو نہ صرف اسلام کی بنیادی تعلیمات کے مطابق ہو بلکہ پوری طرح سے مدلل اور معقول اور حکمیاتی (Scientific) ہو اور کم از کم ان تمام جوابات سے زیادہ معقول اور قابل قبول ہو جو دوسرے مذاہب یا نظریات کے ماننے والے ان ہی سوالات کیلئے پیش کر رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب امت مسلمہ کے ضمیر نے غیر واضح طور پر ہی سہی لیکن اس بات کو محسوس کر لیا ہے کہ اگر ہم اس قسم کا جواب جودرحقیقت اسلام کی مکمل اور منظم حکمیاتی تشریح سے کم نہیں ہو گا، فی الفور مہیا نہ کریں تو ایک نظریاتی جماعت کی حیثیت سے ہماری زندگی خطرہ میں ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس وقت قوم کے تعلیم یافتہ طبقہ میں اسلامی تحقیق کی ضرورت کا ایک عام احساس پیدا ہو گیا ہے۔

جواب دیں