”اسلام کی تاریخ کون بنائے گا؟“
میں نے جیب سے آٹو گراف بُک نکالی۔ ٹائن بی نے قلم کھولا، دستخط کئے، عیسوی تاریخ لکھی، سَر اُٹھایا اور مُسکرا کر کہا “میں ہجری سن بھی لکھنا چاہتا ہوں۔ آپ ابھی اسلام اور اس کے مُستقبل پہ گفتگو کر رہے تھے۔ بتائیے ہجری سن کون سا ہے؟“
میں خاموش ہو گیا۔ ٹائن بی نے فوراً سَر جھکا لیا، اس کا اشارہ واضح تھا۔ “اسلام کی تاریخ وہ لوگ کیونکر بنا سکتے ہیں، جنہیں تاریخ تک یاد نہ ہو۔ صرف باتیں بنانے سے تاریخ نہیں بنا کرتی۔“
ٹائن بی نے 29 فروری 1960ء کے نیچے یکم رمضان 1379 ھ لکھا اور موضوع بدل دیا۔
(اقتباس۔۔۔۔ “ آواز دوست “)