مقالہ لکھنے سے پہلے اسے ضرور پڑھیں!
لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر جیسی سہولیات میسر ہونے کی وجہ سے باحثین خود مقالہ کمپوز کرتے ہیں۔
خود مقالہ کمپوز کرنے میں بہت سے فوائد ہیں اور یہ کام زیادہ سہل معلوم ہوتا ہے۔ اس سے نئی نئی چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں اس وجہ سے یہ ایک دل چسپ عمل ہوتا ہے۔ باحثین خود کمپوزنگ شروع کردیتے ہیں۔ بعد میں بہت سے مسائل پیش آتے ہیں۔
خود کمپوزر بننے سے پہلے اس امر کی تصدیق اور بار بار تصدیق کرلیں کہ آپ کمپوزنگ کے دوران پیش آنے والی تمام مشکلات کو حل کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں یا نہیں؟اگر آپ اس ایڈونچر میں دلچسپی رکھتے ہیں تو مشکل پیش آنے پر تمام رکاوٹوں کو عبور کرسکتے ہیں یا نہیں؟
اگر آپ اس مقصد کی خاطر مزید مشقت جھیل سکتے ہیں اور تمام رکاوٹوں کو حوصلے کے ساتھ دور کرسکتے ہیں تو خود کمپوز کرلیں ورنہ کسی پروفیشنل کمپوزر کی خدمات حاصل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ کیوں کہ مشکل وقت میں مقالے اور اس کے مواد پر توجہ دینا اور کمپوزنگ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے دوہری توجہ اور محنت درکار ہوتی ہے۔
خود کمپوز کرنے کےلیے جن سافٹ وئیرز کی آپ کو ضرورت ہوگی:
پاک اردو انسٹالر جوکمپیوٹر میں اردو لکھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔
مائیکروسافٹ آفس جس میں مقالہ لکھا اور تحریر کیا جاسکتا ہے۔
مائیکروسافٹ آفس کے استعمال سے سبھی لوگ واقف ہوتے ہیں۔ مگر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس سافٹ وئیر کا مقصد صرف کمپوزنگ نہیں ہے بلکہ اسے مکمل طور پر مقالے کی شکل دینا بھی ہے۔ مقالے کی کمپوزنگ کے بعد اسے مکمل مقالے کی شکل دینے سے مراد یہ ہے کہ اس میں حوالہ جات کو مناسب جگہ پر لگانا، پیراگراف کا معیار اور اس میں ہم آہنگی پیدا کرنا، عناوین اور ابواب کا معیار بنانا اور برقرار رکھنا ، فہرست تیار کرنا، یہ سب امور مقالے کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔
نئے کمپوزر پہلے کمپوز کرتے ہیں۔ پھر اس کی ترتیب کے لیے پروفیشنلز کی طرف رجوع کرتے ہیں جو یہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتے کیوں کہ اس مرحلے پر ترتیب و تنظیم کے لیے بھی اچھی خاصی محنت درکار ہوتی ہے۔ اس مرحلے پر نئے کمپوزرز ٹائپنگ کے بعد عناوین کو ایک خاص شکل دیتے ہیں۔ فالتو سپیسز کو ختم کرتے ہیں ۔ آخر میں پرنٹ لے کر دستی فہرست تیار کرتے ہیں۔ فہرست کو تیار کرکے ، صفحات کے نمبر کمپوز کرکے دوبارہ پرنٹ لیتے ہیں۔اس دوران کئی صفحات اور ان کے نمبرز میں دوبارہ گڑ بڑ ہوجاتی ہے۔
اگر مقالے میں 800 پیراگراف ہیں تو مینوئل یا دستی طریقے سے سب کا فونٹ/رسم الخط یا سائز/حجم بدلنے کے لیے مسلسل 1600 منٹ یعنی کم وبیش 28 گھنٹے درکار ہوں گے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اتنا وقت مسلسل دینا کسی کے بس کی بات نہیں اس کام میں کم از کم بھی چار دن اس پر لگ سکتے ہیں۔مینوئل طریقے سے کام کرنا انتہائی دشوار اور بہت سی پیچیدگیوں کا باعث ہے۔ اس کی وجہ تجربے اور معلومات کی کمی ہے۔ اگرآغاز میں صحیح رہ نمائی مل جائے تو کمپوزنگ کے دوران بیس گنا وقت کی بچت ہوجاتی ہے اور سردردی ، الجھن ، پریشانی سے نجات مل جاتی ہے۔
خود کار طریقے سے کام کرنے کے لیے تکنیکی راہ نمائی اور عملی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے اس مقصد کے لیے مائیکروسافٹ آفس ہی کے ایک ٹول کو استعمال کرتے ہوئے اسے مزید آسان اور مختصر کردیا ہے۔اس مقصد کے لیے مائیکروسافٹ آفس کی ایک ٹیمپلیٹ فائل بنائی گئی ہے جس میں عناوین ، پیراگراف،اقتباسات ، حوالہ جات اور فہارس کے تمام معیارات پہلے سے متعین کردیے گئے ہیں۔
حوالہ جات اگر مینوئل طریقے لگائے جائیں تو درمیان میں کسی بھی جگہ ایک حوالے کا اضافہ کرنے سے اگلے تمام حوالوں کو نمبر غلط ہوجاتے ہیں۔اسی طرح حوالہ جات کا فونٹ یا سائز بدلنا بھی ایک مستقل کام ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مینوئل یا دستی طریقے سے کام کے نتیجے میں مقالے میں یکسانیت ختم ہوجاتی ہے اور اکثر سائز کہیں چھوٹا اور کہیں بڑا ہوجاتا ہے۔ کہیں رسم الخط کا فرق آجاتا ہے۔ اگر ٹیمپلیٹ کے ذریعے یہ کام کیا جائے تو مقالے میں شروع سے آخر تک یکسانیت نظر آتی ہے۔
جب کہ یہی کام اگر ٹیمپلیٹ کے ذریعے کیا جائے تو 800 پیراگراف کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹہ درکار ہوگا۔ مقالے کی تکمیل کے بعد فہرست بنانا اور اس کے نمبرز کو اصل کے مطابق رکھنا بھی ایک عظیم الشان سردردی ہوتی ہے۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ اگر آپ نے ایک پیراگراف یا بعض اوقات ایک جملے کا بھی اضافہ کردیا تو اگلے تمام صفحات کے نمبرز خلط ملط ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ پرنٹ لے چکے ہیں تو ایک اضافی پرنٹ کا خرچ بھی برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔اس مسئلے کا حل تیار شدہ ٹیمپلیٹ ہے جو بہت سے کام خود کار طریقے سے سرانجام دیتا ہے۔
مقالے کی فہرست سب سے آخری اور سب سے مشکل کام ہے کیوں کہ اس مرحلے پر مقالہ نگار کا کام مکمل ہونے کے قریب ہوتا ہے۔ وقت اور حوصلہ ختم ہورہا ہوتا ہے جب کہ صفحات کے نمبر گڑبڑ ہونے کے لیے بہانہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات صفحات کے نمبرز کی ترتیب صرف اس وجہ سے بدل جاتی ہے کہ آپ نے ٹائپ کردہ فائل دوسرے کمپیوٹر میں کھول کردیکھ لی کیوں کہ وہاں صفحات کی پراپرٹیز مختلف تھیں ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مائیکروسافٹ کے کسی دوسرے ورژن میں کھول لینے سے بھی صفحات کے نمبر متاثر ہو جاتے ہیں۔ تھوڑی سی غلطی بڑی دشواریوں کا سبب بن جاتی ہے۔ اس لیے مقالہ لکھنے/کمپوز کرنے سے پہلے آپ یہ ٹیمپلیٹ ضرور حاصل کرلیں۔
اس ٹیمپلیٹ میں ایسا کیا ہے کہ اسے استعمال کرنا ضروری ہے؟
تومعرفت کی بات یہ ہے کہ اس ٹیمپلیٹ میں کمپیوٹر کو بتا دیا جاتا ہے کہ باب کا عنوان اس سائز میں اور اس رسم الخط/ فونٹ میں لکھنا ہے۔ فصل کا عنوان اس سائز اور اس فونٹ میں لکھنا ہے۔ بحث کا عنوان اس سائز اور اس فونٹ میں لکھنا ہے۔ جب کہ عام متن اس فونٹ اور سائز میں ہوگا۔ ٹائپنگ سے پہلے یہ سب معیارات طے کرکے ٹائپنگ شروع کی جاتی ہے۔ پھر کوئی بھی لائن یا پیرا گراف شروع کرنے سے پہلے ایک مخصوص بٹن دبا کر صرف یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ ہمارے باب کا عنوان ہے۔ یہ ہماری فصل کا عنوان ہے۔ یہ ہماری بحث کا عنوان ہے۔ یہ ہمارے مقالے کے پیرا گراف کا متن ہے، یہ حوالہ ہے۔ ہمارے بٹن دبانے سے یہ سافٹ وئیر خود بخود اسے طے شدہ معیار کے مطابق بدل جاتا ہے۔
اس کام کو خود کریں تو ایک ایک سطر پر اچھا خاصا وقت لگ جاتا ہے جب کہ اس ٹیمپلیٹ کے ذریعے صرف اور صرف ایک سیکنڈ درکار ہوتا ہے۔ ٹیمپلیٹ کے ساتھ کام کرتے ہوئے کمپوزنگ کے ساتھ ہی خود بخود سیٹنگ ہوتی رہتی ہے۔ کمپوزنگ کے بعد الگ سے تریب وتنظیم کا خرچہ کرنے یا وقت دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کمپوزنگ مکمل ہونے کے ساتھ ہی تمام ترتیبات/سیٹنگز مکمل ہوچکی ہوتی ہیں۔
آخر میں جب لوگ فہرست کے لیے اضافی پرنٹ کا خرچ کررہے ہوتے ہیں اور اس کے باوجود بھی الجھن ختم نہیں ہورہی ہوتی اور مسئلہ حل نہیں ہوتا تب اس ٹیمپلیٹ کو صرف ایک ایگزیکٹو آرڈر دیا جاتا ہے کہ اُن عناوین کو نمبرز سمیت لائن حاضر کیا جائے جنہیں ہم نے عنوان قرار دیا تھا۔ پلک جھپکتے ہی فہرست تیار ہوجاتی ہے۔ اس کام میں زیادہ سے زیادہ پانچ سیکنڈ درکار ہوتے ہیں۔
تو یہ ٹیمپلیٹ کی تعریف ہے ۔ مقالہ نگار اس مقصد کے لیے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے معیار کے مطابق آرڈر پر ٹیمپلیٹ کی فائل تیار کروا سکتے ہیں۔